اسکالرز و تعلیمی ماہرین نے بینظیر بھٹو کو صنفی برابری و خودمختاری کی حقیقی علمبردار قرار دے دیا، شاہ لطیف کی سات سورمیوں کی خوبیاں بینظیر بھٹو میں موجود تھیں، جو انہوں نے پاکستانی سیاست میں متعارف کرائیں، محترمہ کی شخصیت جمہوریت، صنفی برابری، اقلیتوں کے حقوق و سماجی انصاف کیلئے جدوجہد کی علامت تھیں، ان کے فکر کو آج کے نوجوانوں میں عام کرنے کی ضرورت ہے، مقررین کا جامعہ سندھ میں سیمینار سے خطاب

 جامعہ سندھ جامشورو میں گزشتہ روز منعقدہ ایک فکر انگیز سیمینار کو خطاب کرتے ہوئے اسکالرز و تعلیمی ماہرین نے کہا ہے کہ شہید محترمہ بینظیر بھٹو شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری میں بیان کی گئی سندھ کی تاریخی سات سورمیوں کی خوبیوں کی زندہ تصویر تھیں، جس طرح شاہ لطیف کے کلام میں ماروی اور مومل بہادری، قربانی اور ثابت قدمی کی علامات ہیں، اسی طرح بینظیر بھٹو بھی جمہوریت، صنفی برابری، اقلیتوں کے حقوق و سماجی انصاف کیلئے جدوجہد کی علامت سمجھی جاتی ہیں۔ انہوں نے شاہ کی سورمیوں والی خوبیاں پاکستانی سیاست میں متعارف کرائیں تاکہ سیاست میں عدم تشدد، برداشت و رواداری کو فروغ دلایا جاسکے۔ محترمہ کی سوچ، فکر و جدوجہد کو آج کے نوجوانوں اور خواتین میں عام کرنے کی ضرورت ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز جامعہ سندھ کے وائس چانسلر سیکریٹریٹ میں واقع سینیٹ ہال میں محترمہ بینظیر بھٹو چیئر کی جانب سے “محترمہ بینظیر بھٹو کی جمہوریت کیلئے جدوجہد” کے زیر عنوان منعقدہ سیمینار کو خطاب کرتے ہوئے کیا۔ شیخ الجامعہ سندھ پروفیسر ڈاکٹر خلیل الرحمان کھمباٹی نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ بینظیر بھٹو صنفی برابری و خودمختیار کی حقیقی علمبردار تھیں، جنہوں نے نہ صرف سندھ اور پاکستان بلکہ پورے عالم اسلام میں خواتین کو ہمت دی۔ ڈاکٹر کھمباٹی نے اعلان کیا کہ جامعہ سندھ جلد محترمہ بینظیر بھٹو کی زندگی،  جدوجہد و خدمات  پر ایک شاندار بین الاقوامی  کانفرنس کا انعقاد کرے گی، جس میں پاکستان و بیرون ملک سے محققین کو مدعو کیا جائے گا۔سندھ مدرستہ الاسلام یونیورسٹی کراچی کے سابق وائس چانسلر اور محترمہ کے قریبی ساتھ پروفیسر ڈاکٹر محمد علی شیخ نے کہا کہ شاہ لطیف کی سات سورمیوں کی تمام خوبیاں بینظیر بھٹو میں نظر آتی ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ محترمہ کی مفاہمت و جمہوریت کے فروغ والے فکر کو نوجوانوں میں عام کرنا چاہئے۔ شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیرپور کے شعبہ پولیٹیکل سائنس کے سابق پروفیسر ڈاکٹر عبدالمجید چانڈیو نے کہا کہ بینظیر بھٹو کی حکومتوں پر بیرونی مداخلت کے گہرے اثرات تھے۔ ان کے دونوں ادوار کو کبھی بھی مکمل آزادی نہیں دی گئی۔ اگر وہ آزادانہ طریقے سے حکومت چلاتیں تو پاکستان میں جمہوریت مستحکم ہوتی۔ چیئرپرسن شعبہ بین الاقوامی تعلقات  ڈاکٹر عشرت افشاں عباسی نے اپنا تحقیقی مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی دنیا سے تعلقات کو مضبوط کرنے، علاقائی امن، عالمی سطح پر جمہوریت کی وکالت، مسئلہ کشمیر کیلئے سفارتی فورمز کا استعمال اور چین و امریکا کے ساتھ توازن برقرار رکھنا بینظیر بھٹو کی خصوصی ترجیحات رہیں۔ چیئرپرسن شعبہ فلاسافی کی پروفیسر امر سندھو نے کہا کہ بینظیر کا خواب عوامی حقوق پر مبنی جمہوریت تھا۔ بینظیر نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کیلئے جمہوریت، برابری و انسانی حقوق کا معیار قائم کیا۔ قبل ازیں ڈائریکٹر محترمہ بینظیر بھٹو چیئر ڈاکٹر ریحانہ ملاح نے مہمانوں کو خوش آمدید کیا اور سیمینار کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی، تاہم ڈاکٹر فیاض لطیف چانڈیو نے اسٹیج کے فرائض سرانجام دیئے۔ اس موقع پر رجسٹرار پروفیسر ڈاکٹر مشتاق علی جاریکو، ڈائریکٹر پاکستان اسٹڈی سینٹر ڈاکٹر شجاع احمد مہیسر، ڈائریکٹر ایریا اسٹڈی سینٹر ڈاکٹر مکیش کمار کھٹوانی، ڈائریکٹر ڈاکٹر ایم اے قاضی انسٹیٹیوٹ آف کیمسٹری ڈاکٹر عرفانہ ملاح، ڈاکٹر ریاضت برڑو، سندھی، اردو و انگریزی زبان کے بہترین شاعر ڈاکٹر وحید جتوئی، ڈاکٹر عبدالرزاق چنہ، ڈاکٹر عاطف علی منگی، حسین مسرت، گلبدن جاوید، ڈاکٹر تانیہ مشتاق و دیگر اساتذہ و طلباء نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔