جامعہ سندھ میں ماہی گیری کے عالمی یوم پر سیمینار، ماہرین نے مچھلی کے شعبے کو انسانی صحت، پائیداری و معاشی افزائش کیلئے اہم قرار دے دیا
ڈپارٹمنٹ آف فشریز اینڈ اکویٹک سائنس جامعہ سندھ کی جانب سے ماہی گیری کا عالمی یوم بھرپور انداز میں منایا گیا۔ اس موقع پر مختلف سرگرمیاں مرتب کی گئیں، جن کے تحت ایک سیمینار منعقد کیا گیا اور کئی اسٹال لگا کر مچھلی کی اہمیت، ماحولیاتی نظام میں مچھلیوں کی پالنا اور آبی زراعت کے کردار کو اجاگر کیا گیا۔ ماہرین نے مچھلیوں کی انسانی صحت، پائیداری اور معاشی ترقی میں اس کی اہمیت کو کامیابی سے اجاگر کیا۔ تقریبات کا آغاز ڈین فیکلٹی آف نیچرل سائنسز کے آفس میں واقع آڈیو اینڈ ویڈیو روم میں سیمنیار سے ہوا، جس کی صدارت ڈین فیکلٹی آف نیچرل سائنسز پروفیسر ڈاکٹر آغا اسد نور پٹھان نے کی۔ تقریب میں ممتاز علمی ماہرین اور مہمانوں نے شرکت کی، جن میں ڈین فیکلٹی آف سوشل سائنسز پروفیسر ڈاکٹر حماداللہ کاکیپوٹو، رجسٹرار پروفیسر ڈاکٹر مشتاق علی جاریکو، ناظم سالانہ امتحانات شاہد حسین لاڑک، چیئرمین بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری یجوکیشن حیدرآباد ڈاکٹر احمد علی بروہی، ڈاکٹر بشیر احمد میمن، ڈاکٹر راشد کھوڑو، ڈاکٹر سوجومل میگھواڑ، ڈاکٹر تانیہ مشتاق، پروفیسر امید علی رند، ڈاکٹر ایاز سموں، ڈاکٹر قاسم نظامانی، ڈاکٹر شاہ مراد چانڈیو، ڈاکٹر پسند علی کھوسو، عبدالرحمان نانگراج، عبدالحمید مہیسر، ڈاکٹر فیض بروہی، ڈاکٹر جمشید وارثی، ڈاکٹر وقاص جمیل اور کئی طلباء و مہمان شامل تھے۔ ڈاکٹر آغا اسد نور پٹھان نے اپنی صدارتی تقریر میں مچھلیوں کی ایران اسمگلنگ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس خطرناک عمل کو روکنے کیلئے کڑی نگرانی اور حفاظتی اقدامات پر زور دیا۔ انہوں نے مچھلیوں کی اسمگلنگ کے ماحولیاتی و معاشی اثرات پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور اکیڈمیا و صنعت کے درمیان خال کو پُر کرنے کیلئے اہم تجاویز پیش کیں۔ انہوں نے پائیدار آبی زراعت کے انتظام اور آبی زراعت کے شعبے میں نظرانداز شدہ شعبوں کو اجاگر کیا۔ حکومت سندھ کے محکمہ فشریز کے سابق ڈائریکٹر جنرل معظم خان نے تازہ پانی اور سمندری مچھلیوں کو بڑی تعداد میں شکار کرنے اور ماحولیاتی تبدیلی کے باعث پیش آئندہ خطرات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے اسٹیک ہولڈرز پر زور دیا کہ آبی حیاتیات کے تحفظ کیلئے مچھلی کے شکار کا پائیدار عمل اختیار کیا جائے۔ شعبہ فشریز و آبی سائنس کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر خالد حسین لاشاری نے مچھلی کے شعبوں کے وسیع امکانات پر بات چیت کی اور اس کی معیشت و خوراک کے تحفظ میں طویل دورانیہ کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ صحت مند غذا اور صفائی سے متعلق آگہی مہم کے ذریعے عوام میں شعور لانا ضروری ہے۔ ڈائریکٹر ڈاکٹر ایم اے قاضی انسٹیٹیوٹ آف کیمسٹری پروفیسر ڈاکٹر عرفانہ بیگم ملاح نے مچھلی کوغذائی خوراک کے طور پر استعمال کرنے کے فوائد پر زور دیا اور روزمرہ کی غذا میں اس کو شامل کرنے کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے خوراک کی حفاظت کو یقینی بنانے اور بھوک مٹانے کیلئے عوام میں شعور اجاگر کرنے اور پائیدار ترقی کو فروغ دلانے پر زور دیا۔ لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر گلزار عثمان نے مچھلی کھانے کے طبی فوائد بالخصوص دل کے امراض سے بچاؤ سے متعلق اہم نقاط بتائے اور تفصیلی بات چیت کی۔ جامعہ سندھ کے انسٹیٹیوٹ آف بایو کیمسٹری کے ڈاکٹر عاطف حسین منگی نے مچھلی کی غذائی اہمیت کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا اور اس کے اومیگا 3 فیٹی ایسڈز و پروٹینز کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ شوکت سومرو نے بحیرۂ عرب میں مچھلی کے غیر قانونی شکار کے مسئلے پر گفتگو کی اور سمندری وسائل کی حفاظت کیلئے سخت اقدامات پر زور دیا۔ ڈاکٹر اسلم جروار، ڈاکٹر راجیش، ڈاکٹر شہناز راشد و دیگر نے بھی مچھلی کے شعبے میں پائیدار عمل پر روشنی ڈالی۔ سیمینار کا اختتام ڈاکٹر محمد یونس لغاری کے شکریہ ادائی کی تقریر پر ہوا، جس کے بعد مقررین کے علاوہ ایونٹ کے منتظمین ڈاکٹر انیلہ ناز سومرو، ڈاکٹر پنہل خان سومرو، ڈاکٹر بارادی واریانی، ڈاکٹر حمیدہ کلہوڑو، ڈاکٹر منور منہاس، شیر زمان میرانی اور دلاور حسین کو شیلڈز پیش کی گئیں۔ تقریب کی خصوصیت ایک کوکنگ مقابلہ اور اسٹالز کی نمائش تھی، جس میں شعبہ فشریز و آبی سائنس کے طلبہ و طالبات کو تلی اور اور بار بی کیومچھلی کے مزیدار کھانے تیار کرنے اور اسٹالز کو تخلیقی انداز میں میں سجانے پر اول پوزیشن سے نوازا گیا۔ اسی طرح شعبہ جغرافیہ اور سینٹر فار انوائرمینٹل سائنسز کو بالترتیب دوسری اور تیسری پوزیشن سے نوازا گیا۔ اسٹالز پر مختلف اقسام کی مچھلیوں کو بھن کر اور تل کر رکھا گیا، جن میں فارمنگ، جنگلی اور سمندری مچھلیاں شامل تھیں۔ طلبہ و طالبات اور اساتذہ نے بڑی رغبت سے مچھلی کھا کر دیکھی۔