جامعہ سندھ میں بریسٹ کینسر کے بارے میں آگہی سیمینار، مقررین نے ابتدائی تشخیص، احتیاط و کمیونٹی تعاون کو بیماری سے بچنے کیلئے اہم قرار دے دیا

جامعہ سندھ میں منعقدہ سیمینار میں مقررین نے کہا ہے کہ بریسٹ کینسر پاکستان کی خواتین میں سب سے عام قسم کا کینسر ہے، اس لحاظ سے ہر نویں عورت کو اپنی زندگی میں اس بیماری کا خطرہ  لاحق ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر سال تقریباً 90 ہزار نئے کیس رپورٹ ہوتے ہیں، جبکہ تقریباً 40 ہزار خواتین اس بیماری کے باعث اپنی زندگی گنوا بیٹھتی ہیں۔ بیان کردہ اعداد و شمار آگاہی، ابتدائی تشخیص اور بروقت علاج کی سخت ضرورت کو ظاہر کرتے ہیں۔ ایسا اظہار انہوں نے جامعہ سندھ جامشورو کے انسٹیٹیوٹ آف جینڈر اسٹڈیز کی جانب سے منعقد کیے گئے بریسٹ کینسر سے متعلق آگاہی پروگرام میں خطاب کرتے ہوئے کیا۔ تقریب کا مقصد پاکستان میں بریسٹ کینسر سے اموات کی شرح کو کم کرنے کے لیے حفاظتی صحت، ابتدائی تشخیص اور عوامی شعور کی اہمیت کو اجاگر کرنا تھا۔ پرو وائس چانسلر سندھ یونیورسٹی مین کیمپس پروفیسر ڈاکٹر عبد الستار شاہ نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ خواتین کو متاثر کرنے والی بیماریوں کے بارے میں آگاہی کو فروغ دینے اور تحقیق کو آگے بڑھانے میں سرکاری جامعات کا اہم کردار ہے۔ انہوں نے کہا کہ بریسٹ کینسر صرف ایک طبی مسئلہ نہیں بلکہ ایک سماجی چیلنج ہے، جو کمیونٹیز، صحت کے اداروں اور پالیسی سازوں کی مشترکہ ذمہ داری کا تقاضا کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ابتدائی اسکریننگ اور بروقت اقدام سے کئی زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔ انہوں نے انسٹیٹیوٹ آف جینڈر اسٹڈیز کی ٹیم کو بہترین انداز میں آگاہی پروگرام منعقد کرنے پر سراہا۔ ڈین فیکلٹی آف سوشل سائنسز پروفیسر ڈاکٹر نانک رام نے منتظمین کی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ آگاہی مہم پسماندہ علاقوں تک پہنچنی چاہیے، جہاں اب تک غلط فہمیاں اور سماجی پابندیاں خواتین کو بروقت مرض کی تشخیص اور علاج کروانے سے روکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خاموشی توڑنا اور بدنامی کے احساس کو ختم کرنا ہی زندگیاں بچانے کا پہلا قدم ہے۔ انہوں نے حساس صحت پالیسیوں اور کمیونٹی سطح پر باقاعدہ اسکریننگ پروگرامز کی ضرورت پر زور دیا۔ ڈائریکٹر انسٹیٹیوٹ آف جینڈر اسٹڈیز ڈاکٹر امیر علی بُرڑو نے پاکستان میں بریسٹ کینسر کے پھیلاؤ سے متعلق تشویشناک اعداد و شمار پیش کیے۔ انہوں نے کہا کہ بریسٹ کینسر ہمارے ملک میں خواتین میں سب سے عام قسم کا کینسر ہے، جس میں ہر نویں عورت کو اس کا خطرہ ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ہر سال تقریباً 90 ہزار نئے کیس ظاہر ہوتے ہیں اور تقریباً 40 ہزار خواتین اس بیماری کے باعث فوت ہو جاتی ہیں۔ انہوں نے اموات کی شرح بڑھنے کی وجہ آگاہی کی کمی، تاخیر سے تشخیص، ناقص صحت کے نظام اور سماجی و ثقافتی رکاوٹوں کو قرار دیا۔ انہوں نے زور دیا کہ پاکستان میں پورے ایشیا میں بریسٹ کینسر کے سب سے زیادہ کیس ہیں، لہٰذا مزید آگاہی مہمات اور کمیونٹی سطح پر صحت کی سہولیات فراہم کرنا ضروری ہے۔ ڈاکٹر کنول فیروز نے ابتدائی اسکریننگ کی اہمیت اور بروقت علاج میں خاندانی تعاون کے کردار پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ خوف اور سماجی بدنامی کی وجہ سے خواتین اکثر مدد لینے سے ہچکچاتی ہیں، جسے تعلیم اور ہمدردی کے ذریعے ختم کرنا چاہیے۔ ڈاکٹر حوریہ خان نے حفاظتی صحت کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ بچاؤ ہمیشہ علاج سے بہتر ہے۔ باقاعدہ خود معائنہ، صحت مند طرزِ زندگی اور طبی معائنہ بریسٹ کینسر کے خطرے کو کم کرنے کے لیے نہایت ضروری ہیں۔ انہوں نے نوجوان خواتین سے کہا کہ وہ اپنے خاندانوں اور کمیونٹیز میں صحت آگاہی کی علمبردار بنیں۔ سندھ انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ اینڈ نیونیٹالوجی کے فارمیسی شعبے کی سربراہ ڈاکٹر ثنا حسن شاہ نے اپنے ادارے کی صحت آگاہی سے متعلق خدمات پر بات کی۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا ادارہ آگاہی اور عمل کے درمیان فرق کو ختم کرنے کے لیے آگاہی سیشنز اور مفت اسکریننگ پروگرامز چلا رہا ہے۔ طویل المدتی نتائج حاصل کرنے کے لیے جامعات اور صحت کے اداروں کے درمیان تعاون ضروری ہے۔ تقریب کے اختتام پر انسٹیٹیوٹ کے استاد ناصر ناریجو نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا، جبکہ سیشن کی میزبانی کے فرائض جنید رزاق سومرو نے انجام دیے۔ اس سے قبل تقریب کا آغاز انسٹیٹیوٹ آف جینڈر اسٹڈیز کے ایک طالب علم کی تلاوتِ قرآن پاک سے ہوا۔

Author: Mrs. Shumaila Solangi 10/24/2025
Announcements
1024 x 768
Breast cancer awareness seminar at Sindh University stresses early detection, education, c...
View Details → 10/24/2025
1024 x 768
سنڌ يونيورسٽيءَ ۾ ڇاتيءَ جي ڪينسر بابت آگاهي سيمي...
View Details → 10/24/2025
1024 x 768
جامعہ سندھ میں بریسٹ کینسر کے بارے میں آگہی سیمین...
View Details → 10/24/2025