ماہر لسانیات امر فیاض برڑو کا طلباء کو مصنوعی ذہانت کے بین الاقوامی ماڈلز میں سندھی زبان کی نمائندگی کو یقینی بنانے کیلئے ڈجیٹل مواد تیار کرنے کا مشورہ

 ڈائریکٹر عبدالماجد بھرگڑی انسٹیٹیوٹ آف لینگویج انجنیئرنگ امر فیاض برڑو نے سندھی زبان کو ڈجیٹل پلیٹ فارمز پر ضم کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ سندھی لسانیات کو نظرانداز کرنے والی صورتحال سے بچنے کیلئے سندھی بولنے والے لوگوں بالخصوص  طلباء کو مصنوعی ذہانت پرمبنی ٹیکنالوجی جیسا کہ اسپیچ ٹو ٹیکسٹ، ٹیکسٹ ٹو اسپیچ اور مصنوعی ذہانت پر مشتمل ترجمے کے آلات کیلئے فعال کردار ادا کرنا چاہئے۔ سندھی طلباء ڈجیٹل مواد تیار  کریں تاکہ سندھی زبان کی بین الاقوامی اے آئی ماڈلز میں نمائندگی کو یقینی بنایا جا سکے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز جامعہ سندھ کے شعبہ سندھی کے ڈاکٹر عبدالجبار جونیجو آڈیٹوریم میں “مصنوعی ذہانت کے دور میں سندھی زبان” کے زیر عنوان منعقدہ لیکچر پروگرام میں خطاب کرتے ہوئےکیا۔ تقریب کی صدارت وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خلیل الرحمان کھمباٹی نے کی۔ اس موقع پر ڈین فیکلٹی آف آرٹس پروفیسر ڈاکٹر محمد خان سانگی، چیئرمین شعبہ سندھی پروفیسر ڈاکٹر نور محمد شاہ، ڈین فیکلٹی آف انجنیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی پروفیسر ڈاکٹر لچھمن داس دھومیجا، ڈین فیکلٹی آف اسلامک اسٹڈیز پروفیسر ڈاکٹر حافظ منیر احمد خان، ڈائریکٹر لینگویجز ڈاکٹر صاحبداد سکندری، ڈاکٹر عرفانہ بیگم ملاح، ڈاکٹر امر سندھو، ڈاکٹر فیاض لطیف، غلام مرتضیٰ سیال، ساجد قیوم میمن، ڈاکٹر شازیہ پتافی، ڈاکٹر نواب کاکا، پروفیسر ڈاکٹر غلام علی برڑو، ڈاکٹر شاہ مراد چانڈیو، پروفیسر ڈاکٹر عبدالوسیم شیخ، پروفیسر ڈاکٹر محمد علی لغاری، ڈاکٹر مخمور بخاری، ڈاکٹر آصف علی جمالی و دیگر کئی محققین، ماہرین لسانیات، طلباء و ادب کے شائقین نے شرکت کی۔ سندھی زبان کو درپیش چیلنجز سے متعلق بات چیت کرتے ہوئے امر فیاض برڑو نے جامعات میں سندھی لسانیات  و ادب کی غلط درجہ بندی کرنے پر تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ سندھی لسانیات کو الگ علمی شعبہ بنایا جائے، جس میں مورفولوجی، سنٹیکس، فونیٹکس، سیمانٹکس و کمپیوٹیشل ایپلی کیشنز سکھانے پر توجہ دینے کے ضرورت ہے، تاہم ادب الگ موضوع اور الگ ڈگری ہے۔ امر فیاض برڑو نے نوجوانوں کے سندھی زبان کے فروغ میں سوشل میڈیا و ڈجیٹل پلیٹ فارمز پر کردار پہ بھی روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ سندھی زبان کے ڈیٹا سیٹ کو مصنوعی ذہانت کے ماڈلز میں انتہائی اہمیت  حاصل ہے اور ان مقاصد کیلئے سندھی ادب اور بولے جانے والے جملوں اور لسانی ڈیٹا کو منظم طریقے سے ڈجیٹلائز کرنا ضروری ہے تاکہ مصنوعی ذہانت پر مبنی آلات جیساکہ چیٹ بوٹس اور اسپیچ اسسٹنٹس تیار کیے جا سکیں۔ انہوں نے کہا کہ جدید ٹیکنالوجی کی نئی تبدیلیاں نہ صرف حیرت انگیز ہیں بلکہ سوچنے پر مجبور کرتی ہیں، جو انسانی ذہن کے فروغ کیلئے بنیادی اہمیت کی حامل ہیں۔ امر فیاض نے مزید کہا کہ مصنوعی ذہانت نے جدید دنیا کو ہر لحاظ سے  تبدیل کردیا ہے۔ بلاشبہ سندھی ایک قدیم و متمول زبان ہے، لیکن فی الوقت وہ کئی چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے، جن کو حل کرنے کیلئے جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ سندھی زبان کے الفاظ کی ماخذ پر کوئی بڑا تحقیقی کام نہیں ہوا اور نہ ہی سندھی زبان کی نفسیاتی لسیانت پر کوئی خاص تحقیق ہوئی ہے۔ نوجوان اسکالرز کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انہوں نے شعبہ سندھی کے سال آخر کے طلباء کو دعوت دی کی وہ عبدالماجد بھرگڑی  انسٹیٹیوٹ آف لینگویج انجنیئرنگ میں شمولیت اختیار کریں، جہاں وہ اپنی مہارتوں کو بہتر بنا سکتے ہے اور ماہر محقق بن سکتے ہے۔ لیکچر ایک دلچسپ سوال جواب کی نشست پر اختتام پذیر ہوا۔ قبل ازیں وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خلیل الرحمان کھمباٹی نے بھی خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ پہلے مختلف چیئرز کا قیام کرکے کتب شائع کرائی جاتی تھیں تاکہ سندھی زبان کو محفوظ کیا جا سکے، تاہم موجودہ  دور میں زبان کو ٹیکنالاجی کے ساتھ منسلک کرکے اس کو بچایا جا سکتا ہے۔ چیئرمین شعبہ سندھی پروفیسر ڈاکٹر نور محمد شاہ نے مہمانوں کو خوش آمدید کرتے ہوئے امر فیاض برڑو کا تعارف پیش کیا اور سندھی زبان کے ڈجیٹل فروغ میں ان کی کاوشوں کو سراہا۔ ڈاکٹر ریحانہ نظیر ملاح نے تقریب کی کارروائی چلائی۔ قبل ازیں پروفیسر نظر حسین چانڈیو نے بہترین قرئت کے ساتھ قرآن پاک کی تلاوت کا شرف حاصل کیا اور مشہور کلاسیکل گلوکار ذوالفقار علی خان نے حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی کی وائی گا کر حاضرین محفل پر سحر طاری کردیا۔