ماہرین نے سندھ میں دیہی معیشت اور عوامی بہبود کے لیے موسمی تبدیلی کو خطرناک قرار دے دیا، موسمیاتی تبدیلی اس صدی کا سب سے بڑا عالمی چیلنج بن چکی ہے، جو زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کر رہی ہے، سندھ سمیت ترقی پذیر علاقے متاثر ہو رہے ہیں، موسمی تبدیلیوں کے باعث اب گرمی اور سردی کا توازن برقرار نہیں رہا، بارشوں کا نظام مکمل طور پر بدل گیا ہے، جس کے باعث سندھ سمیت ملک میں نئے موسمی مسائل جنم لے چکے ہیں، صوبے کے اندر اب موسم انتہائی حالات کی طرف بڑھ رہا ہے، گرمیوں میں بہت زیادہ گرمی اور سردیوں میں سخت سردی محسوس کی جاتی ہے، اسے ہی ہم موسمی تبدیلی کہتے ہیں،جامعہ سندھ میں منعقدہ سیمینار سے وائس چانسلر ڈاکٹر فتح محمد مری، ناصر علی پنہور، ڈاکٹر نانک رام، ممتاز بخاری، ڈاکٹر علی اکبر ہنگورو، ڈاکٹر راشد علی کهوڑو و دیگر کا خطاب

جامعہ سندھ جامشورو کے سینٹر فار رورل ڈیولپمنٹ کمیونیکیشن کی جانب سے ’’دیہی سندھ میں موسمی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت اور عوامی بھلائی‘‘ کے زیر عنوان ایک روزہ سیمینار منعقد کیا گیا، جس کی صدارت وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر فتح محمد مری نے کی۔ اپنے صدارتی خطاب میں ڈاکٹر مری نے سی آر ڈی سی کو اس طرح کے تعلیمی اور طلبہ کی شمولیت سے منعقدہ معلوماتی سیمینار کے کامیاب انعقاد پر مبارکباد دی۔ انہوں نے کہا کہ موسمی تبدیلی اس صدی کا سب سے بڑا عالمی چیلنج بن چکی ہے، جو زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کر رہی ہے، بالخصوص سندھ سمیت ترقی پذیر علاقے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ موسمی تبدیلیوں کے باعث اب گرمی اور سردی کا توازن برقرار نہیں رہا، بارشوں کا نظام مکمل طور پر بدل گیا ہے، جس کے باعث سندھ سمیت ملک میں نئے موسمی مسائل جنم لے چکے ہیں۔ڈاکٹر مری نے مزید کہا کہ سندھ میں اب موسم انتہائی حالات کی طرف بڑھ رہا ہے، گرمیوں میں بہت زیادہ شدت اور سردیوں میں سخت سردی محسوس کی جاتی ہے، اسے ہی موسمی تبدیلی کہا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ کے ساحلی اور صحرائی علاقے اس تبدیلی سے بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ سمندری سطح میں اضافہ اور پانی کی قلت نے دیہی زندگی پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ وائس چانسلر نے زور دیا کہ سندھ یونیورسٹی ماحولیاتی تعلیم، تحقیق اور عوامی شمولیت کے ذریعے مقامی سطح پر موسمی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لیے پُرعزم ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سب سے زیادہ قدرتی آفات کے لیے حساس علاقہ سندھ ہے، جس کی جغرافیائی حیثیت، سماجی اور معاشی کمزوری اور موسمی حالات کے باعث خطرہ زیادہ ہے۔انہوں نے کہا کہ سال 2022ء میں سندھ میں گزشتہ 30 سالوں کے مقابلے میں 400 فیصد زیادہ بارش ہوئی، جس کی وجہ سے نشیبی علاقوں میں زرعی زمینیں زیرِ آب آ گئیں اور غذائی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوا۔ ماحولیاتی ماہر ناصر علی پنہور نے کہا کہ اگرچہ پاکستان کا عالمی موسمی تبدیلی میں حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے، مگر بدقسمتی سے ہمارا ملک ان ممالک میں شامل ہے جو موسمی اثرات سے بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج کل ترقیاتی منصوبوں کی تیاری کے دوران پانی کے قدرتی بہاؤ کا خیال نہیں رکھا جاتا، جس کے باعث بارشوں اور سیلابوں کے دوران بڑی تباہی ہوتی ہے۔فیکلٹی آف سوشل سائنسز کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر نانک رام نے کہا کہ موسمی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت صرف ایک عام بات نہیں بلکہ ایک سماجی ذمہ داری ہے، ہمیں پائیدار زراعت، پانی کی بچت اور آگاہی کے ذریعے اپنے لوگوں کو تیار کرنا ہوگا۔

سینئر صحافی ممتاز بخاری نے کہا کہ سندھ گزشتہ چند سالوں میں بار بار آنے والے سیلابوں کی تباہ کاریوں سے گزر رہا ہے، جس نے لاکھوں افراد کو متاثر کیا اور ہزاروں گھر تباہ ہوئے۔  انہوں نے 2022ء اور 2025ء کے سیلابوں کی تصاویر دکھائیں اور بتایا کہ اب کلاؤڈ برسٹ (بادل پھٹنا) اور بے ترتیب بارشیں مزید شدید اور خطرناک ہو چکی ہیں۔ریڈیو پاکستان حیدرآباد کے اسٹیشن ڈائریکٹر ڈاکٹر علی اکبر ہنگورو نے کہا کہ کمیونٹی کی بہبود اور موسمی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت ایک دوسرے سے منسلک ہیں، اگر روزگار کے مواقع اور سہولیات فراہم کی جائیں مگر ماحولیاتی استحکام کو نظرانداز کیا جائے تو یہ کوششیں بے کار ثابت ہوں گی۔ انہوں نے خبردار کیا کہ پائیدار ترقی اس وقت تک ممکن نہیں ہوگی جب تک موسمی خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات نہ کیے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ جب گلیشیئر پگھلتے ہیں، سمندر کی سطح بلند ہوتی ہے اور گرمی کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے تو اس سے پورا ماحولیاتی نظام متاثر ہوتا ہے۔ دیہی معیشت کا تقریباً 99 فیصد حصہ زراعت اور لائیو اسٹاک جیسے موسمی حساس شعبوں پر منحصر ہے، لہٰذا ان میں سرمایہ کاری ضروری ہے۔ ڈائریکٹر سی آر ڈی سی ڈاکٹر راشد کهوڑو نے مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ سینٹر طلبہ اور کمیونٹی میں موسمی تبدیلی کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے اور پائیدار ترقی کو یقینی بنانے کے لیے سرگرم عمل ہے۔ انہوں نے کہا کہ تعلیم، تحقیق اور کمیونٹی شراکت ہی ایک لچکدار اور ماحول دوست سندھ بنانے کا راستہ ہے۔ اس موقع پر ڈائریکٹر ایریا اسٹڈی سینٹر ڈاکٹر مکیش کمار کھٹوانی، ڈاکٹر عبدالرزاق چنہ، ڈاکٹر دستار چانڈیو، ڈاکٹر عبدالرزاق چھچھر، ظفر منگی، ڈاکٹر محمد قاسم نظامانی، ڈاکٹر سلمان احمد، ڈاکٹر مبارک لاشاری، ڈاکٹر بشیر میمن، ناول نگار کلیم بُٹ اور دیگر کئی اساتذہ اور طلبہ و طالبات موجود تھے۔

Author: Mrs. Shumaila Solangi 10/16/2025
Announcements
1024 x 768
ٿليسيميا کان بچاءُ ممڪن آهي: سنڌ يونيورسٽيءَ جي س...
View Details → 10/16/2025
1024 x 768
ماهرن سنڌ ۾ ڳوٺاڻي معيشت ۽ عوامي بهبود لاءِ موسمي ...
View Details → 10/16/2025
1024 x 768
ماہرین نے سندھ میں دیہی معیشت اور عوامی بہبود کے ل...
View Details → 10/16/2025