جامعہ سندھ جامشورو میں “ماحولیاتی تباہی کے نتائج: قدرتی آفات، سندھ و پاکستان کیلئے سماجی-اقتصادی و انتظامی چیلنجز اور آگے بڑھنے کا راستہ” کے زیر عنوان دوسری دو روزہ عالمی کانفرنس کا آغاز
جامعہ سندھ جامشورو میں فیکلٹی آف سوشل سائنسز کی جانب سے سندھ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے تعاون سے “ماحولیاتی تباہی کے نتائج: قدرتی آفات، سندھ و پاکستان کیلئے سماجی-اقتصادی و انتظامی چیلنجز اور آگے بڑھنے کا راستہ” کے زیر عنوان دوسری دو روزہ عالمی کانفرنس کا آغاز ہو گیا ہے، جس میں ملک بھر کی جامعات سمیت مختلف ملکوں کے ماحولیاتی ماہرین و اسکالرز نے شرکت کی اور اپنے مقالات پیش کیے۔ بینظیر بھٹو شہید کنویشن سینٹر میں منعقدہ کانفرنس کی افتتاحی تقریب کے مہمان خصوصی چیئرمین سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن پروفیسر ڈاکٹر ایس ایم طارق رفیع تھے۔ تاہم صدارت شیخ الجامعہ سندھ پروفیسر (میریٹوریس) ڈاکٹر محمد صدیق کلہوڑو نے کی۔صدارتی خطاب کرتے ہوئے وائس چانسلر ڈاکٹر کلہوڑو نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی کے خطرات کو روکنے کیلئے حکومت کو اہم اقدامات لینے ہونگے۔ اس ضمن میں ماحولیاتی ماہرین کی سفارشات کو سامنے رکھتے ہوئے پالیسیاں مرتب کی جائیں تاکہ قدرتی آفات کا سامنا کیا جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے صرف سندھ سمیت پاکستان قدرتی آفات کی زد میں نہیں ہیں، بلکہ پوری دنیا کو خطرات لاحق ہیں، لیکن مناسب حکمت عملی کی وجہ سے ترقی یافتہ ممالک جاپان، ملائیشیا، کوریا، امریکہ، کینیڈا، چین، ترکی و دیگر ممالک میں جانی و مالی نقصان کی شرح کم ہے۔ پاکستان کو بھی اس سلسلے میں اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہوگا، جس کیلئے محققین و ماہرین کا کردار اہم ہے۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین ایچ ای سی سندھ ڈاکٹر ایس ایم طارق رفیع نے کہا کہ کانفرنس کا مقصد پوری دنیا کے ماحولیاتی ماہرین و محققین سے تجاویز لے کر سفارشات مرتب کرنا ہے، جو کہ صوبائی و وفاقی حکومت کو ارسال کی جائیں گی تاکہ ان کی بنیاد پر پالیسیاں مرتب کی جا سکیں، جس سےمستقبل میں سندھ اور ملک کی دیگر حصوں میں آنے والے سیلاب، بارشوں و دیگر قدرتی آفات کا سامنا کیا جا سکے۔ ڈائریکٹر (آپریشنز) پراونشل ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی امداد حسین صدیقی نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی ایک باقاعدہ خصوصیت کی حامل بن چکی ہے، جس کا مشاہدہ ہم سندھ میں 2022ء میں ہونے والے بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں کے دوران کر چکے ہیں۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ 2022ء کے بارشوں اور سیلاب میں ایک کروڑو 30 لاکھ آبادی متاثر ہوئی، 73 لاکھ لوگ بے گھر ہوئے اور تقریباً 1100 لوگ اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔ انہوں نے کہا کہ سیلاب کی تباہ کاریوں کے دوران 8500 لوگ زخمی ہوئے اور 4000 مال مویشی ڈوب کر مر گئے۔ انہوں نے کہا کہ37 لاکھ ایکڑ ایراضی پر مشتمل فصلیں بھی 2022ء کے سلاب کے دوران تباہ ہوئیں اور 165 پُل تباہ ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ سیلاب کے دوران سندھ میں مجموعی طور پر 8463 کلومیٹر سڑکیں تباہ ہوئیں، 459 صحت مرکز مسمار ہوئے اور 21 لاکھ گھر تباہ ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ مستقبل ایسے بڑے نقصانات سے بچنے کیلئے صوبائی ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کام کر رہی ہے۔ سینٹر فار اکنامک اینڈ سوک لرننگ بال اسٹیٹ یونیورسٹی امریکہ کے پروفیسر ڈاکٹر ڈیوڈ جے روف نے کہا کہ ماحولیات کے بڑھتے ہوئے چیلنجز کے پیش نظر اعلیٰ تعلیمی اداروں کو ایک بہترین مستقبل بنانے کے حوالے سے اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان و امریکہ کی جامعات کو ملکر ماحولیاتی تباہی کو روکنے کیلئے تحقیق کی بنیاد پر سفارشات تیار کرکے حکومتوں کی مدد کرنا ہوگی۔ تقریب کو کانفرنس کنوینر ڈاکٹر حماداللہ کاکیپوٹو، کانفرنس سیکریٹر ڈاکٹر نیاز احمد بھٹو و دیگر نے بھی خطاب کیا۔ کانفرنس کی افتتاحی تقریب کا آغاز تلاوت کلام پاک سے کی گئی، جس کے بعد جب قومی ترانہ بجایا گیا تو اس کے احترام میں بینظیر کنوینشن سینٹر کے آڈیٹوریم ہال میں موجود تمام مہمان اٹھ کر کھڑے ہوگئے۔ افتتاحی تقریب کے بعد مختلف نشستوں کا آغاز ہوا، جس میں پاکستان سمیت سری لنکا، امریکہ، ملائیشیا، تھائی لینڈ، انگلینڈ و دیگر ممالک کی مختلف جامعات سے آنے والے اسکالرز و محققین نے مذکورہ موضوع پر اپنے تحقیقی مقالات پیش کیے۔ کانفرنس میں مختلف نشستیں آج (بروز منگل) بھی منعقد ہونگی، جس کے بعد سفارشات مرتب کی جائیں گی، جو کہ شام کو منعقد ہونے والی اختتامی تقریب میں پیش کی جائیں گی۔