سابق نگران وزیراعظم نے جامعہ سندھ کو “اصلی پاکستان” قرار دے دیا، نوجوانوں کو بااختیار بنانے اور معاشرتی اصلاحات پر زور

 سابق نگران وزیراعظم پاکستان سینیٹر انوارالحق کاکڑ نے جامعہ سندھ کے انسٹیٹیوٹ آف فارمیسی میں ایک زبردست اور متاثر کن خطاب کیا، جس میں انہوں نے بڑے خواب دیکھنے، معاشرتی چیلنجز پر قابو پانے اور انسانی صلاحیتوں کی طاقت کو بھرپور طریقے سے اپنانے کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے یہ لیکچر فیکلٹی آف فارمیسی کے آڈیٹوریم میں “ہمارے نوجوان، قومی وحدت کے ستون” کے زیرعنوان منعقدہ ایک سیمینار کو خطاب کرتے ہوئے دیا۔ سیمینار میں اساتذہ، انتظامی افسران و طلباء نے شرکت کی۔ سیمینار کا مقصد نوجوانوں میں امید و ہمت کو فروغ دینا اور زندگی کے چیلنجز کا سامنا کرنا تھا۔ اپنے خطاب کا آغاز کرتے ہوئے سینیٹر کاکڑ نے جامعہ سندھ کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہاں آکر انہیں محسوس ہوا کہ وہ اصلی پاکستان میں آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے کیمبرج یونیورسٹی اور آکسفورڈ یونین سمیت کئی جامعات میں خطاب کیا لیکن سندھ یونیورسٹی کا تجربہ منفرد ہے، جو کہ سچ مچ متاثر کن ہے۔ انہوں نے قیادت سے لیکر معاشرتی اصلاحات اور مصنوعی ذہانت  سے لیکر ثقافتی ورثے کی اہمیت تک کئی موضوع زیر بحث لائے۔ انہوں نے نوجوانوں کو بڑے خواب دیکھنے اور خود پر یقین رکھنے کی ترغیب دی۔ طلباء کو بڑے خواب دیکھنے کی ہمت دلاتے ہوئے سینیٹر انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ اللہ انسان کا اصلی ساتھی ہے، جو بھی بڑے خواب دیکھے گا، اللہ تعالیٰ انہیں حقیقت میں بدل دے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان صرف قدرتی وسائل جیساکہ زرعی پیدوار اور معدنیات سے مالامال نہیں ہے، بلکہ اس کا سب سے بڑا وسیلا انسان ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک خاص اور منتخب شدہ ہے، جس کو بڑی صلاحیت سے نوازا گیا ہے۔ مصنوعی ذہانت کے چیلنجز کے بارے میں بات چیت کرتے ہوئے انہوں اس کو ایک “پُرخطر دنیا” قرار دیا، جس کو فوری پر سمجھنے اور اپنانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اے آئی کے اثرات نہیں بچ سکیں گے، اس لیے ہمیں مصنوعی ذہانت کی صلاحیتوں کو ذمہ داری کے ساتھ اپنانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ مصنوعی ذہانت مستقبل ہے اور ہمارے نوجوانوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ  اس ٹیکنالوجی کی تبدیلی کے ساتھ ہم آہنگ ہوں۔ صنفی برابری سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں کہا کہ اصلی تبدیلی تب آئے گی جب مرد و خواتین روایتی سوچ پر دوبارہ غور کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ مشکل اور مناسب حل ہمیشہ پہلے سے تیار شدہ حل سے بہتر ہوتا ہے، ہمیں ایک متوازن معاشرے کے قیام کیلئے دونوں جنسوں کے کردار کو مؤثر بنانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے معاشرتی ہم آہنگی کیلئے اسلحے سے نجات حاصل کرنے کی اہمیت پر بھی زور دیا اور کہا کہ ہمیں معاشرے سے اسلحے کو ختم کرنا ہوگا اور بات چیت اور مشترکہ رہائش کو فروغ دینا ہوگا۔ امن کے استحکام کیلئے قانون کی حکمرانی ہی واحد حل ہے۔ اس موقع پر شیخ الجامعہ سندھ پروفیسر (ایمریٹس) ڈاکٹر محمد صدیق کلہوڑو  نے سینیٹر انوارالحق کاکڑ کو باضابطہ طور پر خوش آمدید کرتے ہوئے طلباء کی کامیابی کیلئے ادارے کے عزم کو اجاگر کیا۔ انہوں نے کہا کہ جامعہ سندھ 1947ء کو قائم کی گئی، جو کہ اب 58 شعبوں اور 9 فیکلٹیز پر مشتمل ہے، جس میں 44 ہزار سے زائد  طلباء زیر تعلیم ہیں۔ ہم اسکالرشپ، ہاسٹل اور ٹرانسپورٹ کی سہولیات سمیت معیاری تعلیم فراہم کرنے کیلئے پرعزم ہیں۔ سیمینار کا اختتام ایک دلچسپ  سوال جواب کی نشست سے ہوا، جہاں سینیٹر انوارالحق نے طلباء و اساتذہ کے مختلف سوالوں کے جوابات دیئے۔ ان کے صاف اور گہرے جوابوں نے سامعین کو مزید متاثر کیا اور انہیں بہتر پاکستان کیلئے اپنا حصہ دینے کا حوصلہ دیا۔ آخر میں مہمانوں کو شیلڈز، سندھی ٹوپی و اجرک کے روایتی تحائف پیش کیے گئے۔ رجسٹرار پروفیسر ڈاکٹر مشتاق علی جاریکو نے مہمانوں کا خصوصی شکریہ ادا کیا۔ سیمینار میں پروفیسر ڈاکٹر خلیل الرحمان کھومباٹی، پروفیسر ڈاکٹر حماداللہ کاکیپوٹو، ڈائریکٹر بیورو آف اسٹیگس ڈاکٹر صنوبر رحمان شیخ، پروفیسر ڈاکٹر کرن سمیع میمن، پروفیسر ڈاکٹر محمد علی گھوٹو، پروفیسر ڈاکٹر عشرت افشاں عباسی، ڈاکٹر عرفان احمد شیخ، ڈاکٹر محمد یونس لغاری، ڈاکٹر عبدالرزاق چنہ، ڈاکٹر سلمان و دیگر نے بھی شرکت کی۔