جامعہ سندھ کے انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن میں “انکم ٹیکس و ای فائلنگ کے بنیادی اصول” کے زیر عنوان سیمینار، قانونی ماہرین نے قومی ترقی و خوشحالی کو فروغ دلانے میں ٹیکس کی ادائیگی کو لازمی قرار دےدیا، شہریوں کو انکم ٹیکس کے قوانین اور ای فائلنگ کے عمل پر زیادہ زیادہ سے معلومات حاصل کرنے کی ضرورت ہے

 انکم ٹیکس کے امور پر کام کرنے والے ماہر وکلاء نے قومی ترقی و خوشحالی کو فروغ دلانے میں ٹیکس کی ادائیگی کو لازمی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ انکم ٹیکس کے قوانین اور ای فائلنگ کے عمل پر زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس ریٹرن کی مؤثر فائلنگ کیلئے پیشہ ور وکلاء کی خدمات لینی چاہئیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز جامعہ سندھ کے انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کی جانب سے “انکم ٹیکس قوانین  اور ای فائلنگ کے بنیادی اصول” کے زیر عنوان منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ سیمینار کو خطاب کرتے ہوئے کراچی انکم ٹیکس بار ایسوسی ایشن کے متحرک رکن فیصل خان نے کہا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے مقرر کردہ قوانین کے مطابق معاشرے کے کچھ طبقات جن میں بیوہ، بزرگ شہری و طلباء شامل ہیں، انکم ٹیکس کی ادائیگی سے مستثناء ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انکم ٹیکس معاملات کو ڈیل کرنے والے وکلاء حضرات کلائنٹس کو ٹیکس کی ادائیگی اور فائلز ہونے سے متعلق مکمل معلومات فراہم کریں۔ انہوں نے سیمینار میں شریک اساتذہ و طلباء کو فائلر کے حقوق سے متعلق آگاہی دیتے ہوئے کہا کہ یوٹیلٹی پرووائیڈرز جیساکہ حیسکو کی جانب سے وصول کردہ اضافی ٹیکسز کی مد میں رقم واپس لی جا سکتی ہے اور حیسکو پابند ہے کہ وہ فائلرز سے وصول کردہ اضافی رقم انہیں واپس کرے۔ کراچی بار ایسوسی ایشن کے ایک دوسرے رکن عبدالمتین نے کہا کہ انکم ٹیکس دینے کا مطلب قومی خزانے میں اپنا حصہ ڈالنا ہے۔ فائلر ہونے کے متعدد فوائد ہیں، جن میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ جہاں نان فائلر کا 10 ہزار بجلی کا بل ہے، وہیں فائلر کے ساتھ کم سے کم 1500 روپے کی رعایت ہوگی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ٹیکس دینے کا عمل عوامی خدمات و انفراسٹرکچر کی ترقی کیلئے قومی فنڈنگ میں اہم کردار  ادا کرتا ہے۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے شیخ الجامعہ سندھ پروفیسر (میریٹوریس) ڈاکٹر  محمد صدیق کلہوڑو نے کہا کہ جامعہ سندھ کے ملازمین و اساتذہ کیلئے مزید آگہی سیمینارز کا انعقاد کیا جائے گا تاکہ انہیں آمدنی کے ٹیکس سے متعلق معلومات فراہم کی جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ جامعہ سندھ کے تمام ملازمین کی تنخواہوں میں سے ٹیکس  کٹوتی ہوتی ہے، اس لیے انہیں فائلر ہونے کے فوائد بھی معلوم ہونے چاہئیں۔ انہوں نے جامعہ کے مفادات کو مسلسل اولیت دینے پر ڈین فیکلٹی آف کامرس اینڈ بزنس ایڈمنسٹریشن پروفیسر ڈاکٹر جاوید احمد چانڈیو کی کاوشوں کو سراہا اور کہا کہ کچھ بھی ہو جائے ڈاکٹر جاوید احمد چانڈیو نے ہمیشہ جامعہ کے مفادات کو ترجیح دی اور وہ اس پر سودے بازی کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ انہوں نے کہا کہ انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن جامعہ سندھ کا انتہائی اہم انسٹیٹیوٹ ہے، جس کے گریجویٹس پاکستان سمیت دنیا بھر میں اہم عہدوں پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے انکم ٹیکس جیسے اہم معاملے پر شعور پیدا کرنے کیلئے سیمینار کا انعقاد کرنے پر پرو وائس چانسلر مین کیمپس پروفیسر ڈاکٹر عبدالستار شاہ، ڈین ڈاکٹر جاوید چانڈیو، ڈائریکٹر آئی بی اے پروفیسر ڈاکٹر امام الدین کھوسو اور ان کے انسٹیٹیوٹ کے فیکلٹی ممبران کو مبارکباد پیش کی۔ وائس چانسلر نے اس موقع پر محترمہ بینظیر بھٹو کنوینشن سینٹر میں تین روز پہلے ویڈیو کانفرنس روم کے قیام کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہاں بھی لیکچرز کرائے جائیں تاکہ ایسے اسپیکرز جو کراچی یا ملک کے دوسرے شہروں سے اپنی مصروفیات کی وجہ سے یہاں نہ آ سکیں تو وہ وہاں بیٹھ کر لیکچر دیں۔ اس شاندار کانفرنس روم میں 80 سے زائد لوگ بیٹھ سکتے ہیں۔ ڈائریکٹر انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن پروفیسر ڈاکٹر امام الدین کھوسو نے بھی تقریب کے دوران انکم ٹیکس کے قوانین کو سمجھنے اور اس پر عملدرآمد کرنے کی اہمیت پر تبادلہ خیال کیا اور کراچی سے تشریف لانے والے ماہر وکلاء و دیگر مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔ سیمینار کے خصوصی مہمان سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر وکیل ایڈووکیٹ صلاح الدین پنہور تھے، تاہم رجسٹرار جامعہ سندھ پروفیسر ڈاکٹر مشتاق علی جاریکو، سیمینار آرگنائزر ڈاکٹر ماریہ شیخ، ایونٹ کو آرڈینیٹر ڈاکٹر فرحان زیب خاصخیلی، فیکلٹی ممبران صائمہ کامران، ڈاکٹر نویدہ کٹپر، ڈاکٹر تانیہ مشتاق، ڈاکٹر سمیع الدین شیخ، ڈاکٹر سید کے بی شاہ، سیما میمن، حنا رند، ڈاکٹر وشنو پرمار و ڈاکٹر محمد میمن نے شرکت کی۔ کانفرنس آرگنائزنگ ٹیم میں طلبہ و طالبات شفقت پالاری، آفتاب جتوئی، منتشیٰ سہتو، فروا نور، حسن کھتری و محمود انصاری شامل تھے۔ تقریب کے آخر میں وائس چانسلر، مہمانوں و فیکلٹی ممبران کو یادگار شیلڈز بھی دی گئیں۔