جامعہ سندھ جامشورو میں “شنگھائی تعاون تنظیم سمٹ 2024ء: علاقائی سلامتی، اقتصادی تعاون اور روابط” کے زیر عنوان سیمینار: مقررین نے ایس سی او سمٹ 2024ء کو پاکستان کے لیے فائدہ مند قرار دے دیا
جامعہ سندھ جامشورو میں “شنگھائی تعاون تنظیم سمٹ 2024: علاقائی سلامتی، اقتصادی تعاون اور روابط” کے زیر عنوان ایک اہم سیمینار میں مقررین نے کہا ہے کہ وسطی ایشیائی ریاستیں سمندر تک رسائی سے محروم ہیں، جس کی وجہ سے پاکستان ایس سی او کے رکن ممالک، خاص طور پر غیر ساحلی وسطی ایشیا کو سمندری راستہ فراہم کر سکتا ہے٬ پاکستان کی اہم جغرافیائی حیثیت اسے جیو اسٹریٹجک، جیوپالیٹکس اور جیو اکنامکس میں برتری فراہم کرتی ہے٬ پاکستان ایک قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے، جن میں کوئلہ، گیس و دیگر معدنیات شامل ہیں، غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے میں ان قدرتی وسائل کا اہم کردار ہو سکتا ہے۔ یہ بات انہوں نے گزشتہ روز کو انسٹی ٹیوٹ آف سندھیالوجی کے پیر حسام الدین راشدی آڈیٹوریم میں منعقدہ سیمینار "شنگھائی تعاون تنظیم سمٹ 2024: علاقائی سلامتی، اقتصادی تعاون اور روابط" سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ مذکورہ سیمینار ایریا اسٹڈی سینٹر فار ایسٹ اینڈ ساؤتھ ایسٹ ایشیا اور شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے اشتراک سے منعقد کیا گیا تھا۔ اپنے صدارتی خطاب میں یونیورسٹی آف سندھ جامشورو کے ڈین فیکلٹی آف سوشل سائنسز پروفیسر ڈاکٹر حماداللہ کاکیپوٹو نے کہا کہ ایس سی او کے رکن ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات کو بڑھانا پاکستان کی برآمدات میں مزید اضافہ کر سکتا ہے۔ اگر آزاد تجارت اور محصولات کی پالیسیاں نافذ کی جائیں تو پاکستان ایس سی او کے رکن ممالک کے لیے ایک ممکنہ مارکیٹ کے طور پر کام کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کی پوری تاریخ ہے٬ اس تجربے کے ذریعے پاکستان ایس سی او کے علاقائی انسداد دہشت گردی ڈھانچے میں مدد کر سکتا ہے کیونکہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اراکین کو سلامتی کے مسائل کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم سمٹ کی میزبانی کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان خطے کی صورتحال میں بڑھتی ہوئی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ سمٹ ہمارے ملک کے لیے سفارت کاری، تزویراتی امور اور معیشت میں اپنی صلاحیتیں ظاہر کرنے کا سنہری موقع تھا۔ انہوں نے کہا کہ الحمدللہ، پاکستان نے خطے میں اپنی اہمیت ثابت کر دی ہے۔ یونیورسٹی آف کراچی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے ممتاز مقرر پروفیسر (میرٹوریس) ڈاکٹر مونس احمر نے ایس سی او کے ذریعے روس، چین اور وسطی ایشیائی ممالک جیسے اہم ممالک کے کردار پر روشنی ڈالی جو امن اور استحکام کو فروغ دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ سمٹ پاکستان کو نہ صرف عالمی مذاکرات میں فعال طور پر شامل ہونے والا ملک بلکہ علاقائی اہمیت کے حامل اقدامات میں قیادت کرنے والا ملک بھی پیش کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کانفرنس ایسے وقت میں پاکستان کو غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے ایک قابل اعتماد شراکت دار کے طور پر پیش کرتی ہے جب اسلام آباد اپنی معیشت کو بحال کرنے کے لیے غیر ملکی سرمایہ کاری کی اشد تلاش میں ہے۔ ایس سی او کے کونسل آف ہیڈز آف گورنمنٹ کی صدارت نے خطے کی جیو پالیٹکس میں ایک فعال کھلاڑی کے طور پر پاکستان کے کردار کو اجاگر کیا۔ یونیورسٹی آف سندھ کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی چیئرپرسن پروفیسر ڈاکٹر عشرت عباسی نے سیمینار کے مقاصد کا خاکہ پیش کیا، جس میں 23 ویں کونسل آف ہیڈز آف گورنمنٹ سمٹ کے اہداف اور اس کے علاقائی سلامتی اور تعاون پر اثرات پر توجہ مرکوز کی گئی۔ تاہم، یہ سمٹ پاکستان کی سفارتی حیثیت کو بلند کرنے اور یہ ظاہر کرنے میں مدد کرے گی کہ وہ کثیر جہتی فورمز میں ایک فعال ملک ہے۔ انہوں نے کہا کہ سی ایچ جی(کونسل آف ہیڈز آف گورنمنٹ) اجلاس نے معیشت، تجارت، ماحولیات، سماجی و ثقافتی روابط کے شعبوں میں جاری تعاون پر تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس نے تنظیم کی کارکردگی کا بھی جائزہ لیا۔ انہوں نے کہا کہ رہنماؤں نے ایس سی او رکن ممالک کے درمیان تعاون کو مزید بڑھانے اور تنظیم کے بجٹ کی منظوری کے لیے اہم تنظیمی فیصلے کیے۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر غلام مصطفیٰ نے کثیرالجہتی کو فروغ دینے میں پاکستان کی اسٹریٹجک پوزیشن اور علاقائی شراکت داروں، بشمول بھارت کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنے کی صلاحیت کو اجاگر کیا۔ رکن ممالک کے آٹھ وزرائے اعظم کی موجودگی نے تنظیم اور خطے میں پاکستان کی بڑھتی ہوئی اہمیت کو اجاگر کیا۔ انہوں نے کہا کہ اعلیٰ سطحی شرکت سے ظاہر ہوتا ہے کہ رکن ممالک پاکستان کو علاقائی چیلنجوں سے نمٹنے اور تعاون کی کوششوں کو آگے بڑھانے میں ایک اہم شراکت دار کے طور پر دیکھتے ہیں، جس سے اس کی سفارتی پہنچ کی سنجیدگی کو تقویت ملتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سفارت کاری ایک عمل ہے، واقعہ نہیں۔ ایس سی او سمٹ کی میزبانی نے یہ ظاہر کیا ہے کہ پاکستان ایک اہم کثیر الجہتی کھلاڑی ہے اور رکن ممالک کے ساتھ اس کی سفارتی حیثیت کو بڑھایا ہے۔ انہوں نے اس واقعے کی اہمیت کو زیادہ اجاگر کرنے سے خبردار کیا، کیونکہ ایس سی او سمٹس کی گردش حروف تہجی کے ترتیب کے مطابق ہوتی ہے۔ پروفیسر غلام مرتضیٰ کھوسو نے عالمی تجارت اور علاقائی تعاون میں ایس سی او کی اہمیت پر تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے بارے میں یہ تنقید کہ یہ غیر ملکیوں کے لیے محفوظ نہیں ہے، حساس ہے مگر حالیہ ایس سی او میٹنگ کے ذریعے پاکستان نے اس بات کو ثابت کردیا کہ پاکستان اب محفوظ ملک بن کر ابہر رہا ہے۔ ایریا اسٹڈی سینٹر کے انچارج ڈائریکٹر ڈاکٹر مکیش کمار کھٹوانی نے کہا کہ ایس سی او کے رکن ممالک کی نمائندگی چین، روس، بیلاروس، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان اور ازبکستان کے وزرائے اعظم کے ساتھ ساتھ ایران کے پہلے نائب صدر اور بھارت کے وزیر خارجہ نے کی، جو کہ علاقائی امن اور خوشحالی کے لیے ایک اچھا شگون تھا۔ مبصر ریاست منگولیا کے وزیر اعظم اور کابینہ کے نائب چیئرمین اور ترکمانستان کے وزیر خارجہ (خصوصی مہمان) نے بھی اجلاس میں شرکت کی، جو خود اس پروگرام کی کامیابی کو ظاہر کرتا ہے۔ ایریا سٹڈی سینٹر کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر نوریہ میمن نے شکریہ ادا کیا۔