سندھ یونیورسٹی نوشہروفیروز کیمپس میں ہراسمنٹ سے متعلق آگہی سیمینار، طلبہ و طالبات اور ملازمین کو محتاط رہنے کی ہدایت، جامعہ سندھ کی اینٹی ہراسمنٹ کمیٹی کی دو درخواستوں کی چھان بین، متاثرین کو میرٹ کے تحت انصاف فراہم کیا گیا، ہراسمنٹ کا باعث بننے والے عمل سے اجتناب برتا جائے، ڈاکٹر آغا اسد نور، ڈاکٹر نسیم اسلم چنہ و دیگر کا سیمینار سے خطاب

جامعہ سندھ کے خان بہادر سید الہندو شاہ کیمپس نوشہروفیروز میں ہراسمنٹ سے متعلق آگہی سیمینار منعقد ہوا، جس کو خطاب کرتے ہوئے مقررین نے نوجوان طلبہ و طالبات کو ہراساں کرنے والے کاموں، ذمہ داریوں، جرمانے و سزاﺅں سے متعلق تفصیلی آگاہی دی۔ فوکل پرسن خان بہادر سید الہندو شاہ کیمپس ڈاکٹر آغا اسد نور کی جانب سے ہراسمنٹ سے متعلق آگہی سیمینار منعقد کیا گیا۔ اس موقع پر صدارتی خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر آغا اسد نور نے کہا کہ سرکاری فرائض کی ادائیگی کی جگہ خواتین و مرد ملازمین یا تعلیمی اداروں میں طلبہ و طالبات کو اپنی ذمہ داریوں سے خبردار رہنا چاہئے اور ایسا کوئی بھی عمل نہیں کرنا چاہئے جو ہراساں کرنے کا باعث بنے۔ انہوں نے کہا کہ شیخ الجامعہ سندھ پروفیسر (میریٹوریس) ڈاکٹر محمد صدیق کلہوڑو کے تعلیمی و انتظامی تجربے و ویژن کے تحت ہراساں کرنے جیسے واقعات پیش نہیں آرہے، لیکن پھر بھی ملازمین اور طلبہ و طالبات کو محتاط رہنا چاہئے۔ ڈائریکٹر اینٹی ہراسمنٹ سیل جامعہ سندھ پروفیسر ڈاکٹر نسیم اسلم چنہ نے کہا کہ ورک پلیس پر ہراساں کرنا جرم ہے، جس کی سزا جرمانہ اور جیل بھی ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ یونیورسٹی نوشہروفیروز کیمپس کے طلبہ و طالبات انتہائی سلجھے ہوئے ہیں، جنہیں تعلیم پر توجہ دینا چاہئے اور ایک دوسرے کو ہراساں کرنے کے عمل سے پرہیز کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اپنی تعلیم پر توجہ دینے کی بجائے مصیبتوں کو دعوت دینے کا کوئی بھی فائدہ نہیں ہے۔ اینٹی ہراسمنٹ کمیٹی کی رکن ڈاکٹر مصباح بی بی قریشی نے کہا کہ ہراساں کرنے کے کاموں میں کوئی بھی فائدہ نہیں ہے، طلبہ و طالبات ذمہ داری سے کام لیں اور تعلیم کو اولیت دیں۔ بعد ازاں اینٹی ہراسمنٹ کمیٹی کی پروفیسر ڈاکٹر نسیم اسلم چنہ، پروفیسر ڈاکٹر مصباح بی بی قریشی اور ڈاکٹر غلام محمد بھٹو نے اینٹی ہراسمنٹ کے دو واقعات کی تحقیقات کی اور درخواست دہندہ کو قانون و میرٹ کے تحت انصاف فراہم کیا۔