پاکستان سائنسی ایپلی کیشنز اور کامیابیوں کو تجارتی بنانے میں ناکامی کی وجہ سے ترقی کے شعبوں میں پیچھے ہے٬ ملک بھر میں سائنسی کاموں اور تحقیقی مقالوں سے متعلق صورتحال زیادہ حوصلہ افزا نہیں۔

مقررین نے کہا ہے کہ ملک میں سائنس اور تکنیکی صلاحیت کی کمی نہیں ہے، لیکن پاکستان سماجی و اقتصادی ترقی کے شعبوں میں صرف اس لیے پیچھے دکھائی دیتا ہے کہ وہ اپنی سائنسی ایپلی کیشنز اور کامیابیوں کو تجارت میں تبدیل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا  موجودہ دور میں سائنس اور اس کی اہمیت کے بارے میں شعور پیدا کرنے کے لیے شعوری کوششیں کرکے ماہرین تعلیم اور صنعت کے درمیان خلیج کو کم کرنے میں بھی مدد کرسکتا ہے۔ اس بات کا اظہار انہوں نے جامعہ سندھ جامشورو میں نیشنل سینٹر آف ایکسیلنس ان اینالیٹیکل کیمسٹری کی جانب سے پاکستان سائنٹفک اینڈ ٹیکنالوجی انفارمیشن سینٹر اسلام آباد کے تعاون سے ایک روزہ پراجیکٹ آگاہی و تربیتی ورکشاپ کی اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا٬ ورکشاپ  کا عنوان “پاکستانی جرنلز میں شائع ہونے والی تحقیق کا قومی ڈیجیٹل آرکائیو” تھا، جس کا مقصد جرائد کے پبلشرز کی کمیونٹی کو مقامی تحقیقی جرائد میں شائع ہونے والی تحقیق سے متعلق ایک الیکٹرانک پلیٹ فارم فراہم کرنا تھا۔  تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وائس چانسلر سندھ یونیورسٹی پروفیسر (میریٹوریس) ڈاکٹر محمد صدیق کلہوڑو نے کہا کہ ورکشاپ کے موضوعات منفرد تھے، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے اس قسم کےسائنسی معلومات کو فروغ دے کر عام آدمی تک پہنچایا جا سکتا ہے۔  انہوں نے کہا کہ میڈیا اور سائنس کے ادارے جو پہلے ہی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں وہ ایک دوسرے کے قریب آ کر مزید بہتر کام کر سکتے ہیں۔ ایک دوسرے کے کام کے بارے میں بامعنی بات چیت اور افہام و تفہیم ملک میں سائنس اور تحقیقی سرگرمیوں کو مقبول بنانے میں مددگار ثابت ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں ٹیکنالوجی پر مبنی ترقی کو تب تک تیز نہیں کیا جا سکتا٬ جب تک صنعت اور ٹیکنالوجی کے درمیان مطلوبہ کنکشن قائم نہیں ہوتا اور یہ کنیکشن یا تعلق صرف تب قائم ہو سکتا ہے٬ جب جامعات اور صنعتیں مل کر کام کریں۔ وی سی نے کہا کہ ٹیکنالوجی کو لیبارٹری سے انڈسٹری اور پھر صارفین کے لیے اس کی منتقلی کے لیے ایک مکمل ڈھانچے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی تکنیکی ماہرین اور محققین کو مارکیٹ تک رسائی دینے کے ساتھ ساتھ ایسا ماحول فراہم کیا جانا چاہیے٬ جس سے وہ سرکاری یا نجی شعبے کی تنظیموں کے ساتھ تعاون کر سکیں۔ انہوں نے جامعہ سندہ جامشورو کے ہاسٹلز میں مقیم طلباء و طالبات کی تعداد، معیاری تعلیم کی فراہمی اور کیمپس میں تجرباتی تحقیق پر توجہ مرکوز کرنے سے متعلق تفصیلی بات چیت کی اور یونیورسٹی میں داخلہ لینے والے طلباء کو فراہم کی جانے والی سہولیات کا بھی تذکرہ کیا۔ ڈاکٹر کلہوڑو نے ملک میں ٹیکنالوجی پر مبنی ترقی کے لیے مجوزہ شعبوں پر تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے جن شعبوں کی نشاندہی کی ان میں توانائی، ٹیکسٹائل، زراعت، لائیو سٹاک، دھاتیں و معدنیات، صنعتی کیمیکل، انجینئرنگ، ٹیلی کمیونیکیشن اور انفارمیشن ٹیکنالوجی شامل ہیں۔ اس موقع پر ڈائریکٹر نیشنل سینٹر آف ایکسیلنس ان اینالیٹیکل کیمسٹری، جامعہ سندھ جامشورو پروفیسر ڈاکٹر سید طفیل حسین شاہ نے میڈیا اور سائنس کے بہتر تعلقات پر زور دیا اور کہا کہ دونوں شعبوں کے درمیان خلا پیدا ہوگیا ہے٬ جس کو پر کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جو یونیورسٹیاں تدریس کے ساتھ ساتھ تحقیق بھی کرتی ہیں٬ وہ قومی امنگوں کے مطابق ضروریات پوری کرنے کے قابل ہو سکتی ہیں٬ لیکن صرف اسی صورت میں جب ان کے کام کو بیرونی دنیا میں درست اور بروقت پہنچایا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ صحافیوں اور سائنسدانوں کو ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھنا چاہیے اور اس انداز میں کام کرنا چاہیے کہ سائنس کو عوام کے سامنے مناسب اور آسان زبان میں پیش کیا جا سکے۔ ڈی جی پاکستان سائنٹفک اینڈ ٹیکنالوجی انفارمیشن سینٹر پروفیسر ڈاکٹر اکرم شیخ نے پاسٹک سروسز کا تعارف کرایا اور کہا کہ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان موجودہ خلیج کو اس وقت کم کیا جا سکتا ہے جب ترقی پزیر ممالک تحقیق پر زیادہ سے زیادہ دہیان دیں گے۔ اس لیے ایسے ممالک کو اپنی جامعات میں تحقیقی سرگرمیوں کو فروغ دلانا ہوگا۔ پاکستان کے نقطہ نظر سے سائنس اور ٹیکنالوجی کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے اہل ٹیچرز کی تعداد میں اضافے، یونیورسٹیوں کی خود مختاری، ریسرچ  اینڈ  ڈ ولپمینٹ کے لیے مناسب فنڈنگ اور انفراسٹرکچر کی ترقی پر زور دیا۔ انہوں نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے بڑھتی استعمال اور ان کی اہمیت پر بھی بات کی اور کہا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت کا ملک کے اہم تحقیقی اداروں سے بہت کم تعلق ہے٬ جس پر تشویش ہے۔ ڈی جی نے مزید کہا کہ ملک بھر کی جامعات میں سائنسی کاموں اور تحقیقی مقالوں سے متعلق صورتحال زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ تحقیقی پرچے ہیلتھ سائنس سے متعلق موجود ہیں تاہم اس وقت کم سے کم پرچے فزکس میں شائع ہیں، جبکہ میٹریل سائنس میں پچھلے کچھ سالوں سے کوئی پرچہ دستیاب نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ تحقیقی شعبے میں بدانتظامی کی وجہ سے مزید مصائب سے بچنے کے لیے وسائل کے صحیح استعمال کے لیے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ پراجیکٹ مینیجر سیف اللہ عظیم نے کہا کہ پاکستان سائنٹفک اینڈ ٹیکنولوجیکل انفارمیشن سینٹر قومی سطح پر سائنسی کمیونٹی کی معلومات کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے سائنسی اور تکنیکی معلومات کو جمع کرنے اور پھیلانے کا ایک اہم ادارہ ہے۔ انہوں نے پاکستان سائنٹفک اینڈ ٹیکنولوجیکل انفارمیشن سنٹر کی خدمات کا ایک جائزہ پیش کیا اور محققین کے لیے فائدہ مند نئے تیار کردہ ڈیٹا بیسز پر روشنی ڈالی۔  انہوں نے پاکستان میں ریسرچ کمیونٹی کے لیے اس کی اہمیت کے بارے میں بصیرت فراہم کرتے ہوئے پروجیکٹ کے مقاصد، کامیابیوں اور جاری منصوبوں کا بھی خاکہ پیش کیا۔ اس سے قبل ورکشاپ میں تکنیکی سیشن کا انعقاد کیا گیا، جس کا اہتمام سندھ یونیورسٹی کے نیشنل سینٹر آف ایکسیلنس ان اینالیٹیکل کیمسٹری نے پاکستان سائنٹفک اینڈ ٹیکنولوجیکل انفارمیشن سینٹر اسلام آباد کے اشتراک سے کیا تھا تاکہ ریسرچ جرنل پبلشرز کی کمیونٹی کو جدید جرنل پبلشنگ ٹولز اور تکنیک سے بااختیار بنایا جا سکے۔  ایسوسی ایٹ منیجنگ ایڈیٹر، سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ، اسلام آباد رومیلا قمر تربیتی ورکشاپ کی ریسورس پرسن تھیں۔ سندھ ریجن سے 65 کنسورشیم اراکین نے پروجیکٹ کی آگاہی اور تربیتی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔