
جامعہ سندھ جامشورو میں تھر کے ماحول، معیشت و کمیونٹی کے زیرعنوان دو روزہ بین الاقوامی ورکشاپ کا آغاز، محققین و پالیسی سازوں کے مابین ہم آہنگ کوششوں کے ذریعے تھر جیسے علاقوں کی سماجی و اقتصادی ترقی کیلئے نئے اور جدید حل پیش کیے جا سکتے ہی
جامعہ سندھ جامشورو کے محترمہ بینظیر بھٹو کنوینشن سینٹر میں “سرحد سے باہر: تھر میں ماحول، معیشت و کمیونٹی” کے زیر عنوان دو روزہ بین الاقوامی ورکشاپ کا آغاز ہو گیا ہے۔ ورکشاپ کی افتتاحی تقریب کی صدارت قائم مقام وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خلیل الرحمان کھمباٹی نے کی۔ انہوں نے اپنے صدارتی خطاب میں تھر کے ماحول و معیشت کی اہمیت کو ایک وسیع علاقائی تناظر میں پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر احتیاط کے ساتھ تلاش اور انتظامات کیے جائیں تو تھر کے صحرائی علاقے میں پائیدار ترقی کیلئے خصوصی صلاحیت موجود ہے۔ انہوں نے ماحولیاتی چیلنجز کو حل کرنے اور مقامی کمیونٹیز کی معاشی حالت کو بہتر بنانے کیلئے تحقیق کی اہمیت پر زور دیا۔ وائس چانسلر نے اس ضمن میں تعلیمی اداروں کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ اعلیٰ تعلیمی ادارے ملکر ماحولیاتی توازن اور اقتصادی اصلاحات کیلئے پالیسیوں کی تشکیل میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ڈاکٹر کھمباٹی نے مزید کہا کہ محققین اور پالیسی سازوں کےمابین ہم آہنگ کاوشیں کامیابی کے ساتھ اس علاقے کی سماجی و اقتصادی ترقی کیلئے نئے اور جدید حل پیش کر سکتی ہیں۔ سابق وائس چانسلر سندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈو جام پروفیسر ڈاکٹر فتح محمد مری نے اپنے خطاب میں تھر کی تاریخی و سماجی-اقتصادی حرکات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ تھر کے ثقافتی ورثے کو محفوظ رکھنا ضروری ہے، تاہم یہاں کے لوگوں کی قسمت بدلنے کیلئے ترقیاتی منصوبوں پر عملدرآمد کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر مری نے مقامی کمیونٹیز کو تعلیمی و مہارتوں کے ترقیاتی پروگرامز کے ذریعے مستحکم بنانے کی اہمیت پر زور دیا اور تھر کے حساس ماحولیاتی نظام پر موسمی تبدیلیوں کے منفی اثرات کو اجاگر کیا۔ انہوں نے کہا کہ تھر کے لوگوں کیلئے قلیل عرصے کیلئے فائدہ مند ماڈل متعارف کرانے چاہئیں۔ رجسٹرار جامعہ سندھ پروفیسر ڈاکٹر مشتاق علی جاریکو نے کہا کہ جامعات کا اہم کردار یہ ہونا چاہئے کہ وہ علاقائی مسائل پر تحقیق کریں۔ انہوں نے تھر کی تاریخی اہمیت کو تسلیم کیا اور یہاں کے لوگوں کو سخت موسمی حالات میں خود کو زندہ رکھنے کی صلاحیت کا ذکر کیا۔ ڈاکٹر جاریکو نے پانی کی حفاظت اور توانائی کے حل سے متعلق بھی پالیسیاں بنانے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ نوجوانوں کیلئے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کیلئے اکیڈمک اور انڈسٹریز کے درمیان مؤثر تعلق ہونا ضروری ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ اس قسم کے ورکشاپس عملی تحقیق اور پالیسی سفارشات کا سبب بن سکتے ہیں۔ ڈائریکٹر پاکستان اسٹڈی سینٹر پروفیسر ڈاکٹر شجاع احمد مہیسر نے کہا کہ تھر کے علاقے انتہائی خوبصورت اور قدرتی وسائل سے مالامال ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تھر کو اس وقت سماجی، ثقافتی و اقتصادی چیلنجز درپیش ہیں، جنہیں فوری طور پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ مشترکہ کوششیں پائیدار حل پیدا کر سکتی ہیں۔ امریکہ کی یونیورسٹی آف پینسلوانیا کے اسکالر ڈاکٹر برائن کینن نے بھی تھر جیسے صحرائی علاقے میں ماحولیاتی و اقتصادی نظام کے آپس میں تعلق سے متعلق اپنی رائے کا اظہار کیا۔ انہوں نے عالمی تحقیقاتی تعاون کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ تعلیمی اداروں کا کردار پائیدار ترقی کے نئے طریقوں کو فروغ دینے میں ہے۔ افتتاحی تقریب کی میزبانی ڈاکٹر عبدالرزاق چنہ نے کی، تاہم ڈاکٹر عرفان احمد شیخ نے مقررین، منتظمین و شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔ ورکشاپ میں مختلف نشستیں بھی ہوئیں، جن میں ڈاکٹر نور احمد جنجھی، ڈاکٹر سید منہاج الحق حسن، آکاش کمار، حسبہ طفیل، امجد علی، ڈاکٹر ارم شیخ و دیگر محققین نے اپنے تحقیقی مقالے پیش کیے، جو ورکشاپ کے اہم موضوع سے متعلق تھے۔ بین الاقوامی ورکشاپ آج (بروز جمعہ) بھی جاری رہے گا، جس میں مزید محققین اپنے تحقیقی مقالے پیش کریں گے، جس کے بعد اختتامی تقریب منعقد کی جائے گی۔ واضح رہے کہ مذکورہ ورکشاپ امریکن انسٹیٹیوٹ آف پاکستان اسٹڈیز کے تعاون سے جامعہ سندھ کے پاکستان اسٹڈی سینٹر اور شعبہ تاریخ کی جانب سے منعقد کیا گیا ہے۔