
موہن جو داڑو 25 لاکھ سال قدیم ہونے کا انکشاف، یہ مقام کئی بار اجڑا اور آباد ہوا، جوہی کے باشندوں نے بھی داڑو کو آباد کرنے کی کوششیں کی، دوبارہ اجڑنے کے بعد بدھ ازم کے لوگ پہنچ گئے، تاحال اس مقام کی صرف 8 فیصد کھدائی ہو سکی
نامور تاریخ دان و محقق پروفیسر ڈاکٹر غلام مصطفیٰ شر نے انکشاف کیا ہے کہ سندھ کی قدیم تہذیب کا مرکز موہن جو داڑو ساڑھے پانچ ہزار سال نہیں بلکہ 25 لاکھ سال قدیم ہے، جو کئی بار اجڑا اور دوبارہ آباد ہوا۔ موہن جو دڑو کے اجڑنے کے بعد جوہی کے باشندوں نے نقل مکانی کرکے یہاں آکر اس کو آباد کرنے کی کوشش کی، آگے چل کر داڑو دوبارہ ویران ہوا تو بدھ ازم سے وابستہ باشندوں نے کچی اینٹوں سے اسٹوپا بنا کر تپسیائیں کیں۔ ان خیالات کا اظہار گزشتہ روز جامعہ سندھ کے انسٹیٹیوٹ آف سندھیالوجی کے پیر حسام الدین شاہ راشدی آڈیٹوریم میں “سندھو تہذیب کی ابتداء، عروج و زوال کے نئے انکشافات” کے زیر عنوان سندھ شناسی لیکچر سیریز کے سلسلے میں منعقدہ لیکچر کو خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انسٹیٹیوٹ آف سندھیالوجی کی جانب سے ایم ایچ پنہور انسٹیٹیوٹ آف اسٹڈیز کے تعاون سے منعقدہ لیکچر پروگرام کی صدارت شیخ الجامعہ سندھ پروفیسر ڈاکٹر خلیل الرحمان کھمباٹی نے کی۔ معروف تاریخ دان و محقق ڈاکٹر غلام مصطفیٰ شر نے کہا کہ موہن جو دڑو کی کھدائی کے دوران نیزے، کلہاڑی اور خنجر کے علاوہ اور بھی کئی ہتھیار دریافت ہوئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ موہن جو داڑو کے ایک گھر سے 16 سے زائد لاشوں کی ہڈیاں ملیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں حملہ آوروں نے حملہ کیا تھا۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ تاحال موہن جو دڑو کی صرف 8 فیصد کھدائی ہوئی ہے اور ابھی 92 فیصد حصہ باقی ہے، اگر باقی ماندہ حصے کی کھدائی ہوئی تو کئی حقائق منظرعام پر آجائیں گے اور کئی رازوں سے پردہ اٹھ جائے گا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ موہن جو داڑو کی زبان دراوڑی نہیں تھی، بلکہ اس کی اپنی مقامی زبان تھی۔نامور مورخ کا کہنا تھا کہ موہن جو داڑو کی تاریخی حیثیت کو ازسر نو سمجھنے کی ضرورت ہے، کیونکہ اب تک کی دریافت سے معلوم ہوا ہے کہ یہ تہذیب انتہائی ترقی یافتہ اور وسیع علمی نظام پر مشتمل تھی۔ انہوں نے کہا کہ نئی تحقیق سے ایسے آثار، مہریں اور ماڈل ملے ہیں، جو پہلے کبھی سامنے نہیں آئے۔ انہوں نے کہا کہ موہن جو داڑو صرف آثار کا ایک مقام نہیں بلکہ ایک زندہ علمی خزانہ ہے، جو سندھ کی عظمت، علم، فن و تہذیب کی روشن مثال ہے۔ ڈاکٹر شر نے زور دیا کہ موہن جو داڑو کی تہذیب کو صرف شہری منصوبہ بندی تک محدود نہ سمجھا جائے، کیونکہ یہاں کے باشندوں کے پاس سائنس، تکنیکی تعلیم، سماجی اقدار و کاوربار کی بھی وسیع معلومات تھی۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ موہن جو داڑو پر جدید سائنسی طریقے سے تحقیق کیلئے فنڈز جاری کیے جائیں اور بین الاقوامی سطح پر اس کی اہمیت کو روشناس کرنے کیلئے اقدامات لیے جائیں۔ تقریب کو صدارتی خطاب کرتے ہوئے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خلیل الرحمان کھمباٹی نے کہا کہ سندھ کی وہ جامعات جہاں تاریخ و اینتھرو پالوجی کے شعبے موجود ہیں ملکر موہن جو داڑو اور سندھ کی تاریخ پر تحقیقی کام کریں تو مطلوبہ نتائج مل سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تقسیم ہند کے بعد سندھ کی تاریخ پر کوئی خاطر خواہ تحقیقی کام نہیں ہوسکا، جس کی وجہ سے ایک بھی مستند کتاب موجود نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں محکمہ ثقافت کو بھی پیش رفت کرنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ دور مصنوعی ذہانت کا دور ہے، اس لیے سندھ زبان کی بقا کیلئے عبدالماجد بھرگڑی انسٹیٹیوٹ کے ساتھ کام کر رہے ہیں تاکہ سندھی زبان کو بچایا جا سکے۔ انہوں نےاعلان کیا کہ جامعہ سندھ اب جو بھی ڈگری جاری کرے گی وہ دو زبانوں سندھی اور انگریزی پر مشتمل ہوگی، ایسی قراردادپہلے سے پاس کی ہوئی ہے لیکن اس پر عملدرآمد نہیں ہو رہا تھا۔ ہم نےدوبارہ اکیڈمک کونسل سے یہ قرارداد منظور کرائی۔ پروگرام میں ڈائریکٹر انسٹیٹیوٹ آف سندھیالوجی غلام مرتضیٰ سیال، شہید اللہ بخش سومرو یونیورسٹی آف آرٹ، ڈیزائن اینڈ ہیریٹیج کے سابق وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر بھائی خان شر، ڈاکٹر فیاض لطیف چانڈیو، ڈاکٹر ریاضت برڑو، ڈاکٹر وزیر علی بلوچ، پروفیسر ڈاکٹر لچھمن داس دھومیجا، ساجد قیوم میمن و دیگر کئی نامور ادیب، دانشور، محققین و اسکالرز موجود تھے۔